دلچسپی کا انحصار
سوال یہ ہے کہ ہر بچہ پڑھ لکھ کر بڑا آدمی کیوں نہیں بن پاتا؟ ہر بچہ پڑھائی میں دلچسپی کیوں نہیں لیتا؟ والدین اور اساتذہ عموماً بچوں کو یا ماحول کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، حالانکہ تعلیم میں بچوں کی دلچسپی کا انحصار ان کی اپنی توجہ کے ساتھ ساتھ والدین اور اساتذہ کے رویے اور برتاﺅ پر بھی ہوتا ہے۔ تربیت اور برتاﺅ بچوں میں علم کی محبت پیدا کرتے ہیں بچوں سے بہتر طور پر کام لینے کیلئے بچوں کی محبت حاصل کرنا ضروری ہے تاکہ بچے اپنے بڑوں کو اپنا ہمدرد سمجھیں، ان کے مزاج کی رعایت رکھتے ہوئے کام کریں نیز ہر اس کام سے بچیں جس میں والدین اور اساتذہ کی ناراضگی کا خطرہ ہو۔ درج ذیل نکات پر والدین اور اساتذہ کی توجہ انتہائی ضروری ہے۔
نصب العین
ہم دیکھتے ہیں کہ فٹ بال کا کھلاڑی سردی گرمی، درد اور تکلیف کی پرواہ کیے بغیر میدان میں دوڑتا ہوا نظر آتا ہے کیوں کہ اس کے سامنے اس بھاگ دوڑ اور کوشش کا ایک مقصد ہوتا ہے یعنی حریف ٹیم کے خلاف گول کرکے اپنے ملک کی ٹیم کو جتوانا۔ مقصد کے حصول کی فکر اسے بے توجہی اور بے ڈھنگے پن سے باز رکھتی ہے۔ یہی صورت حال اس شخص کی ہوتی ہے جو زندگی کے میدان میں اپنی کوششوں اور بھاگ دوڑ کو کسی متعین مقصد کیلئے یکسو کر دیتا ہے۔ مقصد کے تعین کے بعد کی جانے والی جدوجہد انسان کو منظم، متحرک اور مستعد بنا دیتی ہے۔ اس ضمن میں والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ وہ بچوں کو مقصد کے بارے میں احسن طور پر ترغیب دیں، نصب العین کے تعین میں ان کی صلاحیتوں اور مزاج کے مطابق ان کی مدد کریں۔
ایک صاحب نے اپنے بچے کی صلاحیتوں اور رجحان کو جانچے بغیر بچپن ہی سے اسے انجینئر کہنا شروع کردیا۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح بچے میں خود بخود شوق پیدا ہو جائے گا اور ایک دن وہ انجینئر بن جائے گا۔ گھر کے دیگر افراد، رشتہ دار اور دوست احباب بھی اسے انجینئر کہہ کر پکارنے لگے، مگر وہ بچہ بڑا ہو کر ایف ایس سی بھی پاس نہ کر سکا۔ یہ اور بات ہے کہ لوگ آج بھی اسے انجینئر کہہ کر پکارتے ہیں اور وہ شرمندگی محسوس کرتا ہے۔
یہ ایسی غلطی ہے جو بیشتر والدین کرتے نظر آتے ہیں۔ بچے کے رجحان و میلان اورصلاحیتوں کو جانچے بغیر اس پر کوئی نصب العین مسلط کرنے سے خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر وہ اس رویے کی بنا پر ڈاکٹر یا انجینئر وغیرہ بن بھی جائے تو وہ اس میدان میں خاطر خواہ کارنامے انجام نہیں دے پاتا۔ انسان کا مزاج ہے کہ وہ ان سرگرمیوں میں زیادہ دلچسپی لیتا ہے جس کا انتخاب اس نے خود کیا ہو۔
والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ تعلیمی سالوں کے دوران مضامین کے انتخاب میں بچوں کی رائے اور دلچسپی کو فوقیت دیں تاکہ پڑھائی کی جانب ان کی توجہ قائم رہ سکے۔ جب ایک بچہ اپنی پسند اور طبیعت کے مطابق اپنے طے شدہ نصب العین کی جانب بڑھتا اور محنت کرتا ہے تو وہ تھکن اور بیزاری کا شکار نہیں ہوتا بلکہ وہ منزل کے حصول کی فکر میں کوشاں رہتا ہے حتیٰ کہ درپیش چیلنجوں اور مشکلات کا مقابلہ کرنے میں بھی وہ خوشی اور مسرت محسوس کرتا ہے۔
حوصلہ افزائی
انسان فطرتاً تعریف و توصیف کا خواہاں ہوتا ہے وہ چاہتا ہے کہ اس کے کارناموں اور خوبیوں کی نشاندہی میں کنجوسی سے کام نہ لیا جائے۔ برے سے برا آدمی بھی بری عادات رکھنے کے باوجود اس بات کی خواہش رکھتا ہے کہ اس کے اچھے کام کی تعریف کی جائے۔ یہ انسان کی فطرت ہے لہٰذا والدین اور اساتذہ بچوں کی تربیت اور تعلیم میں ان کی دلچسپی حاصل کرنے کیلئے اس فطرت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
امتحان میں فرسٹ پوزیشن حاصل کرنے والے ایک طالب علم نے مجھے بتایا کہ وہ ایک اوسط درجے کا طالب علم تھا۔ پانچوں کلاس میں ریاضی کے پرچے میں فیل ہو گیا تو ریاضی کے استاد نے اسے اپنے پاس بلایا اور کہا کہ تمہارا فیل ہونا یقینا ناممکن تھا، اگر تم محنت اور توجہ سے کام لو تو پہلی پوزیشن حاصل کر لو گے کیونکہ محنت کرنے میں تم کسی سے پیچھے نہیں ہو، یہ صفت تمہیں تمہاری منزل تک آسانی سے پہنچا دے گی۔ اس طالب علم کا کہنا تھا کہ استاد صاحب نے یوں ہر سال میری حوصلہ افزائی جاری رکھی اور میں ہر کلاس میں فرسٹ پوزیشن حاصل کرتا گیا۔
مقصد حاصل کرنے کی خواہش انسان کو راہ میں پیش آنے والی مشکلات سے گزار دیتی ہے تاہم حصولِ منزل کی طرف سفر میں جوش و خروش یا پھر مقصد پر توجہ میں کمی واقع ہو جائے تو صرف بڑوں کی جانب سے حوصلہ افزائی ہی ایسا نسخہ اکسیر ہے جس کے ذریعے نئی اور بھرپور توانائی حاصل ہوتی ہے۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ بچوں کو صرف کامیابی پر شاباش نہ دیں بلکہ محنت کرنے پر بھی شاباش دیں، کیونکہ محنت ہی کی بدولت کامیابی حاصل ہوتی ہے۔اس کے علاوہ تعریف کرنے کیلئے ایک جیسے الفاظ و کلمات کا بار بار اظہار ان میں موجود اثر زائل کر دیتا ہے لہٰذا کوشش کرکے نئے نئے الفاظ اور کلمات سے بچوں کو خراج تحسین پیش کیا جائے۔
اس بات کا خیال رکھا جائے کہ ضرورت سے زیادہ تعریف مناسب نہیں، یہ بچے کو بگاڑ سکتی ہے۔ والدین اور اساتذہ کو صحیح موقعوں پر صحیح انداز سے تعریف کرتے رہنا چاہیے۔ بعض اوقات یہ بھی ہوتا کہ تعریف کے مثبت اثرات فوراً ظاہر نہیں ہوتے لہٰذا اس ضمن میں صبر سے کام لیا جائے اور تعریف کرنا بند نہ کیا جائے۔
بچوں سے تبادلہ خیالات کریں
اپنے بچے کو اپنے سے قریب کریں اور اسے سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس سے بچے کو درپیش مسائل کا آپ کو علم ہو گا۔ کامیاب لوگوں کے سبق آموز واقعات اور کامیابی کے راز دلچسپ انداز سے بچے کو سنائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے تجربات بتائیں، اپنے بچپن اور لڑکپن کے واقعات سنائیں مگر یاد رکھیں کہ اپنی کامیابیوں کی مثالوں سے اسے مرعوب یا احساس کمتری میں مبتلا نہ کریں۔ ان طریقوں پر عمل کرنے سے انشاءاللہ بچے کی سوچ اور رویے میں مثبت تبدیلی پیدا ہونا شروع ہو گی۔ وہ زیادہ محنت، توجہ اور دلچسپی سے مطالعہ کرے گا۔ آپ کو یہ یاد رہنا چاہیے اگر آپ چوبیس گھنٹے میں بچے کو صرف ایک گھنٹہ بھی نہیں دے پاتے تو آپ کو اس کی ناکامی پر گلے شکوے کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں